کورونا وائرس نامہ


کورونا وائرس نامہ

چین نے 31 دسمبر 2019 کو عالمی ادارہ صحت(WHO) کو بتایا کہ ووہان شہر میں نمونیا کی مانند علامت دکھانے والا ایک مرض نمودار ہو رہا ہے۔ 9 جنوری 2020 کو عالمی ادارہ صحت نے بتایا کہ یہ مرض ایک وائرس کی وجہ سے پھیل رہا ہے جسے کورونا وائرس کہا جاتا ہے۔ 11 فروری2020 کو عالمی ادارہ صحت نے اس وائرس کا نام سیویر ایکیوٹ ریسپریٹری سنڈروم کورونا وائرس-2 (Cov 2 SARS) اور اس مرض کا نام کورونا وائرس ڈیسیز آف 2019 (کوویڈ-19) دیا۔

 کورونا وائرس کی عام معلومات     
کورونا وائرس کوئی نیا وائرس نہیں ہے۔ یہ پوری فیملی آف وائرس ہے۔ وہ لوگ جن کا میڈیکل سے تعلق نہیں ہے۔ان کے لیے معلوم ہونا ضروری ہے کہ بیکٹیریا پورا خلیہ ہوتا ہے۔ وہ الگ سے زندگی گزار سکتا ہے۔ لیکن وائرس خلیہ کا جینیاتی مواد کا ایک چھوٹا سا حصہ ہوتا ہے۔ آر این اے یا ڈی این اے کا ایک چھوٹا سا حصہ ہوتا ہے۔یہ زمین پر ویسے ہی پڑا ہوا ہو یا دوسری جگہ پڑا ہوا ہو تو یہ بڑھ نہیں سکتا۔ اس کو ایک میزبان چاہیے ہوتا ہے۔یہ اس میزبان کے ساتھ منسلک ہوتا ہے تو افزائش نسل کرنا شروع کرتا ہے اور ایک سے کئی وائرس بنانا شروع کرتا ہے۔وائرس تو ہماری فضا میں بے شمار ہیں جو فضا میں حرکت کر رہے ہیں۔اور یہ انفلوئنزا بھی ایک وائرس ہے۔اسی طرح سے عام تنفسی انفیکشن جیسے نزلہ، زکام وغیرہ۔اس وائرس کی وجہ سے ہوتا ہے۔مگر یہ وائرس فیملی آف وائرسز میں سے ایک ہے۔اس وائرس اور دوسرے وائرس میں یہ فرق ہے کہ یہ وائرس تھوڑا سا وزن میں عام وائرس سے زیادہ وزنی ہوتا ہے۔ عام طور پر اگر کوئی کھانستا یا کوئی چھینکتا ہے یا پھر کوئی زور سے بھی بول رہا ہوتا ہے تو اس کے سانس کے ساتھ ننھے قطرے کے ساتھ وائرس پھیلتا ہے اور کوئی شخص ایسی فضا میں سانس لے تو سانس کے ذریعے اس دوسرے شخص کے اندر چلا جاتا ہے۔ لیکن اس وائرس میں ہمارے لئے ایک بات فائدے کی یہ ہے کہ یہ وزن میں زیادہ ہے جس کی وجہ سے یہ آسانی سے زمین یا جو کوئی بھی چیز ہو اس پر سیٹل ہو جاتا ہے اور نیچے بیٹھ جاتا ہے۔ یہ کھانسنے یا چھینکنے یا زور سے بولنے والے شخص یا اس کے سامنے کے اشخاص کے کپڑوں پر، ہاتھ پر یا پھر ناک کے ذریعے کسی شخص میں جا سکتا ہے۔ لیکن یہ دوسرے وائرس کی طرح فضا میں نہیں تیرتا جس کی وجہ سے یہ ننھے قطرے سے نہیں پھیلتا۔ ہوا سے اس کا پھیلاو نہیں ہوتا البتہ اگر یہ وائرس میز پر یا دروازے پر یا سامنے والے شخص کے ہاتھ پر جائے اور پھر وہ شخص میز، دروازے کو چھوتا ہے تو وائرس اس شخص کی ناک یا منہ سے اندر چلا جاتا ہے۔ یا ہماری ایک عام عادت ہوتی ہے ہے کہ ہم تھوڑی تھوڑی دیر سے اپنے آنکھوں کو صاف کرتے ہیں تو بھی آنکھ کے ذریعے سے وائرس اندر چلا جا سکتا ہے۔اور جب یہ اندر چلا جاتا ہے تو بالکل دوسرے وائرس کی طرح ناک کی نالی کی سوزش، گلی کی سوزش یا سانس کی نالی کی سوزش کرتا ہے اور یہ انفیکشن ہوتا ہے جو بعد میں نمونیا میں تبدیل ہوجا تا ہے۔

کورونا وائرس انسانی جسم کو کس طرح کھاتا ہے؟
کرونا وائرس گول ہوتا ہے اور اس کی سطح سے مشروم نما پروٹین باہری طرف پھیلے ہوئے ہوتے ہیں انہیں سپائک کہا جاتا ہے۔یہ سب سپائک وائرس کو تاج نما حلیہ عطا کرتے ہیں اس لیے اسے کورونا وائرس کہتے ہیں۔ ناول کورونا وائرس دوسرے وائرس کی طرح ہے جس میں وائرس کو ایک میزبان کی ضرورت ہوتی ہے انسانی جسم اس کا ذریعہ بنتا ہے جو اسے زندہ رہنے اور پھیلنے میں مدد کرتا ہے دراصل وائرس ایک ایسی چیز ہے جو خود کچھ بھی نہیں کر سکتا اسے نسل بڑھانے کے لیے کسی زندہ جاندار کی ضرورت ہوتی ہے وائرس،بیکٹیریا سے کافی الگ ہوتا ہے اسے کھانے پینے اور آرام کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اس کا ایک ہی کام ہے کہ اپنے جیسے وائرس کو پیدا کرنا اور یہ تبھی ہو سکتا ہے جب اسے ایک کامل میزبان مل جائے۔ ناول کورونا وائرس(Cov 2 SARS)،کورونا وائرس کی ایک اکیلی قسم نہیں یہ ایک ایسا خاندان ہے۔جس میں کئی قسم کے وائرس موجود ہیں۔دوسرے قسم کے کورونا وائرس میں مڈل ایسٹ ریسپریٹری سنڈروم (MERS) اور سیویر ایکیوٹ ریسپریٹری سنڈروم (SARS) بھی شامل ہیں اور ان سبھی قسم کی کرونا وائرس کو جانوروں سے انسانوں میں منتقل کیا جاسکتا ہے۔ جسے زونوٹک(Zoonotic) کہا جاتا ہے. اب ہم دیکھتے ہیں کہ جسم کے اندر کورونا وائرس کا سفر کیسا ہوتا ہے؟جب آپ سانس لیتے ہیں تو وائرس بڑی تیزی سے آپ کے گلے اور ناک میں گھس کر اندر تک چلا جاتا ہے۔کرونا وائرس کا پروٹین سپائک انسانی جسم میں بیماری پیدا کرنے کے سلسلے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ جب کورونا وائرس انسانی جسم میں ناک یا منہ سے داخل ہو تو وہ حلق سے گزر کر نظامِ تنفس میں پہنچتے ہی وہاں کسی خلیے کو تلاش کرتا ہے تاکہ اس خلیے سے چپک کر اسے اپنا غلام بنا سکے۔ تب وائرس کا پروٹین سپائک انسانی خلیے کے ایک خصوصی ابھرے پروٹین، اے۔سی۔ای-2 (ACE2) سے چپکنے کی کوشش کرتا ہے۔اگر وائرس کا پروٹین سپائک انسانی خلیے کے اے۔سی۔ای-2 (ACE2) سے چپکنے میں کامیاب ہوجائے تو سمجھ لیجئے کہ انسان وائرس سے پیدا شدہ مرض کا نشانہ بن گیا۔پروٹین سپائک اور پروٹین اے۔سی۔ای-2 (ACE-2) کہ باہمی ملاپ میں ایک خامرہ فیورین (Furin) بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔جب دونوں پروٹین قریب آئیں تو فیورین متحرک ہو جاتا ہے۔ وہ پھر کیمیائی تعامل کے ذریعے دونوں پروٹین کو باہم جڑا رہنے کی اجازت دے دیتا ہے۔یہ فیورین نامی خامرہ خوردبینی سطح پر انسان کی ایک مدافعتی ڈھال ہے۔اگر انسانی جسم میں داخل ہونے والے کسی وائرس کا پروٹین فیورین قبول کرنے سے انکار کر دیں تو وہ کسی خلیے کو نشانہ نہیں بنا پاتا۔اور انسان اس وائرس سے مخصوص بیماری میں مبتلا نہیں ہو سکتا۔
 اگر وائرس کا پروٹین سپائک انسانی خلیے کے اے۔سی۔ای-2 (ACE-2) سے چپکنے میں کامیاب ہوجائے توسمجھ لیجئے کہ انسان وائرس سے پیدا شدہ مرض کا نشانہ بن گیا۔ اور یہ وائرس ناک کے اندر موجود خلیات کو قابومیں کرتا ہے۔آپ کے خلیوں کے اندر جاکر کورونا وائرس آپ کے خلیوں کو ہدایت دیتا ہے کہ وہ اپنا کام چھوڑ کر صرف کورونا وائرس پیدا کرنے میں لگ جائے۔اس عمل کے بعد جب بہت سارے کورونا وائرس آپ کی ناک اور گلے میں بن جاتے ہیں تو وہ پھٹ کر پھیلنے لگتے ہیں اور آس پاس کے باقی خلیوں کو بھی اپنے قابو میں کرنے لگتے ہیں پھر ان خلیوں کو اپنے پلیٹ فارم کی طرح استعمال کرتے ہیں۔اپنی نسل کا یہی چکر دہرانے لگ جاتے ہیں آپ کی ناک اور گلے میں آپ کے اپنے خلیے جب ختم ہونے لگتے ہیں تب آپ کو سوکھی کھانسی اور گلے میں خارش ہوتی ہے۔ آپ کے ذریعے محسوس کیا جانے والا درد ایک سگنل ہے کہ آپ کے خلیے خطرے میں ہیں اور ختم ہو رہے ہیں۔ اس کے بعد دھیرے دھیرے آپ کا مدافعتی نظام یہ احساس کرتا ہے کہ آپ کے اندر تو کوئی اور جسم موجود ہے جس کے بعد آپ کامدافعتی نظام کو اپنا کام کرنے میں وقت لگنے لگتا ہے۔اور جب یہ ہوتا ہے تو آپ کے اندر میموری سیلز بھی پیدا ہونے لگتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ وائرس آگے مستقبل میں کوشش کرتا ہے تو مدافعتی نظام تیز رد عمل کرے گا۔مدافعتی نظام پائروجن نام کے کیمیکلز خارج کرتا ہے۔یہ آپ کے دماغ کو آپ کا درجہ حرارت بڑھانے کا پیغام دیتے ہیں۔ جس سے آپ کو 37.8 ڈگری سیلسیئس یا اس سے زیادہ بخارہوسکتا ہے۔بخار جسم کو آپ کے مدافعتی نظام کے اور حصوں کو کام کرنے کے لئے مدد کرتا ہے ہے اور وائرس کے لیے نامناسب ماحول بناتا ہے۔ کئی ماہرین کہتے ہیں کہ بخار حقیقت میں انفیکشن سے لڑنے کے لیے قابل ہوتا ہے۔حالانکہ بخار سے انسان کمزور اور تھکا ہوا محسوس کرتا ہے۔ اس لئے اسے کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جس سے لوگ وائرس کی وجہ سے بہت برا محسوس کر رہے ہیں۔ وہ دراصل ڈر ہے۔ جس کی وجہ سے وہ تیزی سے خود کی نقل تیار کرتا ہے اور جسم پر برے طریقے سے حملہ کرتا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ بخار، کھانسی اور گلے میں خارش جیسی علامات زیادہ تر انسانوں میں ختم ہو جا رہے ہیں اور پانچ سے سات دنوں کے اندر جسم کا مدافعتی نظام اپنے آپ کام کرنے لگ رہا ہے۔جس سے لوگوں کے ٹھیک ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ حالانکہ ان لوگوں کیلئے یہ حالات بے حد نازک ہو جاتے ہیں جن کا مدافعتی نظام پہلے سے ہی بگڑا ہوا ہو۔ وہ اس وائرس کو پھیلانے کا کام بھی کر سکتے ہیں۔ یہ وائرس سیدھے پھیپھڑوں کے نیچے کی جانب کام کرتا ہے۔ یہاں پھیپھڑوں میں خلیوں پر حملہ کرتا ہے۔جس سے پھیپھڑوں کو آکسیجن لینے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرنے میں مشکل ہونے لگتی ہیں اور پھر سانس لینے میں بھی تکلیف ہونے لگتی ہے۔کوویڈ19 وائرس پھیپھڑوں کے زیادہ سے زیادہ حصوں پر حملہ کرتا ہے۔ پھیپھڑے میں سوجن آتی ہے۔ پھر پھیپھڑے سیال اور پس سے بھرنا شروع کر سکتے ہیں۔ جس سے نمونیا کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ مریض کو وینٹیلیٹر میں بھیجنے تک کی نوبت آتی ہے اور مرنے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کورونا وائرس کے مریضوں کو سانس لینے میں تکلیف ہونے لگتی ہے۔ وائرسز سے متاثرہ مریضوں کو سینے اور باقی جسم کے حصوں میں درد اور توانائی کی کمی جیسا محسوس ہوتا ہے۔ کئی بار مریض کو اسہال کی شکایت بھی ہو جاتی ہے۔ کیونکہ یہ وائرس آپ کے ناک سے ہوتے ہوئے آپ کی آنت تک جا سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ وائرس متاثرہ شخص کے ملنے سے بھی خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ جس کی ماہرین بھی جانچ کر رہے ہیں۔

کورونا وائرس کا پھیلاؤ اور اس سے حفاظت
کورونا وائرس اس وقت پھیلتا ہے جب اس کے ننھے قطرے آپ کی آنکھوں، ناک اور منہ میں داخل ہوجاتے ہیں۔ اگر آپ کسی کو کھانستے یا چھینکتے ہوئے دیکھیں تو آپ بیمار شخص سے تین فٹ دور رہیں۔ تاکہ بشتر ننھے قطروں سے محفوظ رہیں اور بیمار شخص کو ماسک مہیا کریں تاکہ وہ ماسک کے اندر ہی کھانس یا چھینک سکے۔ جس سے آس پاس کے لوگ محفوظ رہیں۔ مصروف جگہوں اور بھیڑ میں جانے سے گریز کریں۔ کیونکہ آپ کو نہیں معلوم کہ ان میں سے کون بیمار ہے۔ یہ ممکن ہے کہ کورونا وائرس متاثر لوگوں میں بیماری کی کوئی علامت نہ ہوں۔ تب بھی یہ وائرس پھیلا سکتے ہیں کسی متاثرہ شخص کا لعاب کے ننھے قطرے دوسری چیزوں پر بھی لگ سکتا ہے۔ جیسے اس کے ہاتھ، دروازے کے ہینڈل، بس کے ہینڈل، پین، ماؤس، موبائل فون، لیپ ٹاپ، لفٹ بٹن، کپ یا سیڑھیوں کی ریلنگ وغیرہ اور اگر آپ ان چیزوں کو چھونے کے بعد اپنی آنکھیں ملیں، چہرے کو ہاتھ لگائیں یاکسی اور کے چہرے کو ہاتھ لگائیں تو آپ بیماروں پڑسکتے ہیں۔ وائرس 24 گھنٹوں تک چیزوں پر زندہ رہ سکتے ہیں اور ان سے نجات پانے کا سب سے اچھا طریقہ انہیں صابن سے دھونا ہے۔ اسی لئے ان چار احتیاطی تدابیر پر عمل کریں۔ اپنے یا کسی کے چہرے کو ہاتھ نہ لگائیں۔ بہت ضروری ہو تو پہلے ہاتھ صابن سے اچھی طرح دھولیں۔ ہاتھ تھوڑا اوپر تک دھوئیں۔ ہاتھ اچھی طرح دھونے کا کیا مطلب ہے؟ ہاتھوں کی پشت بھی دھوئیں۔ انگلیوں کے درمیان اور ناخنوں کے نیچے بھی دھوئیں۔ کم از کم بیس سیکنڈز تک۔ ماسک اگر گندے لگیں تو فوراً پھینک دیں اور انھیں ایک دن سے زیادہ نہ پہنیں۔ اور اگر بہت دیر تک پہنے گے تو ماسک کے اندر بیکٹیریا اور وائرس پیدا ہوجائیں گے۔ماسک کے باہر کا حصے کو بھی نہیں چھونا چاہیے۔اور اگر چھو بھی لیا ہے تو پریشان نہ ہو۔ بس جاکر ہاتھ صابن سے دھوئیں۔ اپنا کھانا، برتن،کپ اور تولیہ الگ الگ رکھیں۔کھانے سے پہلے اور باہر سے گھر پہنچتے ہی ہمیشہ ہاتھ صابن سے دھوئیں۔ خود کو اور اپنی فیملی کو کورونا وائرس سے محفوظ رکھیں۔

کوویڈ- 19 کی علامات 
کورونا وائرس کی علامات پہلے دن سے آخری دن تک کیسے ہوتے ہیں؟ علامت بتانے کے پہلے ضروری معلومات شیئرکرتا ہوں تاکہ آپ اسے بہتر طریقے سے سمجھ سکیں۔
کورونا وائرس کے تین درجات ہیں۔(1) ہلکا (2) شدید (3) انتہائی نازک۔تقریبا 80 فیصد افراد ہلکے کورونا وائرس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ 14 فیصدافراد شدید کورونا وائرس کا شکار ہوتے ہیں۔تقریبا 6 فیصد افراد انتہائی نازک کورونا وائرس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہلکے کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ اس صورت میں آپ کو ہلکا پھلکا بخار ہوگا۔ آپ چلتے پھرتے بھی رہیں گے اور کام بھی کریں گے۔ ہرگز نہیں اس میں بھی علامات شدید ہوں گے۔ لیکن یہ ہلکا اسلئے ہے کیونکہ اس صورت میں مریض اتنا بیمار نہیں ہوتا کہ اسے آکسیجن لگانی پڑے۔ شدید کی صورت میں آکسیجن لگانی پڑتی ہے اور انتہائی نازک صورت میں مریض کا کوئی عضو خراب ہو جاتا ہے۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ ہر درجے کے لئے مریض پر روزبروز مرض کس طرح شدت اختیار کرتا ہے۔ عام طور پر وائرس لگنے کے 2 سے 14 دن کی اندر اندر وائرس کی پہلی علامت ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہے اور بی بی سی کے مطابق اوسطاً پانچ دن کے اندر اندر پہلی علامت ظاہر ہوتی ہے۔ یہ پہلی علامت عام طور پر بخار یا نزلہ کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت اور چین کے مشترکہ مشن نے بتایا کہ 88 فیصد افراد کو شروع میں بخار ہوتا ہے اور تقریبا 9 فیصد کیسز میں مریض کو قے آنا یا اسہال کی بھی شکایت ہوتی ہے۔کورونا وائرس سانس کی بیماری ہے اس لیے یہ پھیپھڑوں کو زیادہ متاثر کرتی ہے۔ وائرس پھیپھڑوں میں داخل ہوتا ہے اورپھیپھڑوں کے خلیات کو تباہ کرنا شروع کر دیتا ہے۔ جب خلیے مرتے ہیں تو وہ دوسرے خلیوں کی سوجن کا باعث بنتے ہیں جس سے مزید خلیے تباہ ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ اس سوجن کی وجہ سے کھانسی آتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت اور چین کے مشترکہ مشن کے مطابق تقریبا 68فیصد مریضوں نے خشک کھانسی کا بھی ذکر کیا۔ اس کے علاوہ پہلے دن سے چوتھے دن تک مریضوں میں سانس لینے میں دشواری، تھکاوٹ، جوڑوں کا درد، بہتی ہوئی ناک اور سر درد کی شکایت بھی محسوس کی گئی۔ پانچویں دن سانس لینے میں دشواری اور گلے کا درد شدید ہو جاتا ہے اور چھے سے سات دن میں فرد کو اندازہ ہوتا ہے کہ ا سے اسپتال میں جانا چاہیے۔ تاہم ہلکے کیسز آٹھویں دن تک بہتر ہوچکے ہوتے ہیں۔ لیکن شدید یا انتہائی نازک کیسز میں مریض کو نمونیا ہو جاتا ہے۔ جو کہ جان لیوا بھی ہو سکتا ہے۔ اس طرح کے مریض کی صحت یابی میں دن یا ہفتے لگ سکتے ہیں۔ بدقسمتی میں مرض بڑھ جاتا ہے اور انہیں ARDS نامی بیماری ہو جاتی ہے۔ اور مریض کے پھیپھڑوں میں پانی بھر جاتا ہے. جس سے خون میں آکسیجن کم ہونے لگتی ہے. اس طرح کی حالت میں جسم کا مدافعتی نظام صحت مند خلیات کو بھی مارنا شروع کر دیتا ہے. ARDS مہلک مرض ہے اس لیے مریض کو ICU میں داخل کر دیا جاتا ہے. اگر ہم بیمار محسوس کریں تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ ڈاکٹر کرس سمتھ جو کیمبرج یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں انہوں نے اس سوال کا جواب یوں دیا کہ اگر آپ کو اچانک تیز بخار ہو جائے جس کی شدت 37.8 ڈگری سیلسیس سے زیادہ ہو اور آپ کو مسلسل کھانسی شروع ہو جائے عام کھانسی کی طرح نہیں کہ آپ صبح میں اٹھے اور گلے میں خارش تھی اور تھوڑا کھانس لیا۔ نہیں بلکہ مسلسل کھانسی ہو رہی ہے اور سانس لینے میں دشواری بھی ہو تو ہوسکتا ہے کہ آپ کو کوویڈ-19 کا مسئلہ ہے آپ فوراََ اپنے معلج سے رابطہ کریں یا قریبی اسپتال میں طبی معائنہ کرائے۔ کورونا وائرس کا پتہ PCR -RTٹیسٹ سے لگایا جاسکتا ہے۔

کوویڈ-19 زیادہ متعدی کیوں؟ 
کوویڈ-19 پر 17 مارچ کی تحقیق جو The New England Journal of Medicine 
نے کی۔اس کے مطابق یہ وائرس مریض کے اوپری اورنچلے تنفسی نظام کے حصے میں رہتا ہے۔ یعنی پھیپھڑوں، منہ اور حلق کے قریب رہتا ہے۔اس کی وجہ سے چھینکنے یا کھانسنے والا شخص بہت آسانی سے اس وائرس کو باہر ہوا میں منتقل کردیتا ہے۔آپ نے سنا ہو گا وہ مریض جن میں ابھی علامات بھی ظاہر نہیں ہوئی ہوں۔ وہ بھی یہ وائرس پھیلا رہے ہیں۔ جس کا جواب یہی ہے کہ یہ وائرس حلق کے اندر بیٹھا رہتا ہے اور چھینکنے یا کھانسنے سے فوراً باہر آجاتا ہے۔جبکہ پرانا سارس کورونا وائرس میں ایسا نہیں تھا. یہ انفیکشن عموماً پھیپھڑوں میں رہتا تھا۔ یعنی یہ وائرس پھیپھڑوں کے اندر اپنا گھر بناتا تھا۔ اس لئے پرانا SARS چھینکنے یا کھانسنے سے اتنی آسانی سے باہر نہیں آتا تھا۔ اس کی وجہ سے اس سے کم لوگ متاثر ہوئے تھے۔ آخر میں ہم مزید حقائق سے پردہ اٹھاتے ہیں۔ جو کہ اسی تحقیق کی وجہ سے دنیا کو پتا چلے اور وہ یہ ہے کہ وائرس پلاسٹک اور اسٹینلیس اسٹیل پر 72 گھنٹے تک زندہ رہ سکتا ہے۔ کارڈ بورڈ پر 24 گھنٹے جبکہ تانبہ پر 4گھنٹے تک زندہ رہ سکتا ہے۔ اس لیے یہ وائرس کسی دکان کے کاؤنٹر پر جو اسٹیل یا پلاسٹک سے بنے ہوتے ہیں 72 گھنٹے تک زندہ حالت میں چپکا رہ سکتا ہے۔ جو دوسروں کو آسانی سے متاثر کرسکتا ہے۔ اس لیے یہ مرض زیادہ متعدی ہے۔

ممکنہ علاج اور دوائیں 
کسی بھی وبائی مرض کے لیے بہترین لائحہ عمل ویکسین کا استعمال ہوسکتا ہے۔ اس وقت کورونا وائرس یا کوویڈ-19 سے بچاؤ کے لیے کوئی ویکسین دستیاب نہیں ہوسکی۔ البتہ اس کے چھوٹے پیمانے پر ٹرائل ضرور ہو چکے ہیں۔ ویکسین یا کوئی بھی دوائی بنانے کا عمل نہایت ہی پیچیدہ مراحل سے گزرتا ہے۔ اس لیے اس کے آنے میں وقت لگ سکتا ہے۔ اس عمل میں سائنسدان ایسی ویکسین بنائیں گے جو جسم کے مدافعتی نظام یا خلیوں کو ایسے پروٹینز بنانے میں مدد کریں کہ ہمارے جسم میں کورونا وائرس کے خلاف ایک طاقتور مدافعتی ردعمل پیدا ہوجائے۔ آپ جسم کے بخار یا درد کو کم کرنے کے لیے کم مقدار میں پیراسیٹامول دے سکتے ہیں۔ تاہم کسی بھی وائرل انفیکشن میں پیراسیٹامول کا زیادہ استعمال یا بڑی مقدار سے پرہیز کرنا چاہیے۔
کلوروکوین کا کوروناوائرس کے خلاف استعمال ایف-ڈی-اے سے منظور نہیں.البتہ ماضی کی تحقیق بتاتی ہے کہ کورونا فیملی سے تعلق رکھنے والے ماضی کے وائرسز جیسے سارس کورونا وائرس کے خلاف یہ بہت کارآمد ثابت ہوئی تھی۔اس لیے ناول کورونا وائرس میں بھی اس کی افادیت کو خارج امکان نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم اس پر مزید تحقیق عنقریب سامنے آنے والی ہے۔ ہیڈرو آکسی کلوروکوین، کلوروکوین کا ہی ایک ماخوذ ہے جو کہ مُضراثرات کے حوالے سے کلوروکوین کے مقابلے میں کم زہریلا ہے۔ ماضی کی تحقیق کے مطابق کورونا فیملی کے خلاف یہ بھی عمدہ دوائیں ثابت ہوئی تھی۔
 آج کل آپ نے ایزیتھرو مائیسین کے بارے میں سنا ہوگا کہ یہ دوائی کورونا بیماری میں استعمال ہو سکتی ہے۔ ایزیتھرو مائیسین بنیادی طور پر ایک اینٹی بائیوٹک ہے۔ نتائج سے ثابت ہوا ہے کہ یہ نظام تنفس یعنی پھیپھڑوں کی سوزش کو کم کرنے میں کامیاب ہوئی۔ ظاہر ہے اس دوائی نے وائرس کو تو نہیں مارا لیکن اپنے منفرد اینٹی انفلیمیٹری ایکشن کی وجہ سے پھیپھڑوں کو وائرس کے نتیجے میں ہونے والی مہلک سوزش کو کم کرنے میں کامیاب رہی۔ ایسے میں ایزیتھرومائیسین یا ہائیڈروآکسی کلوروکوین، کلوروکوین کا بروقت استعمال، زندگی بچانے میں معاون ثابت ہوسکتا تھا۔ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے یہاں پر کلونجی کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ جس کے بارے میں حدیث میں آیا ہے کہ اس میں موت کے علاوہ ہر بیماری کی شفاء موجود ہے۔ کوئی بھی دوائی استعمال کرنے سے پہلے یہ ضرور دھیان میں رہے کہ دوائی تب ہی اثر کرتی ہے جب اس میں اللہ تعالی کی مرضی موجود ہو۔

 ممنوعہ دوائیں-
1- آئیوپروفین یا بروفین یا دیگر بخار یا درد کم کرنے والی ادویات جیسے نسائڈز 
2- اسٹیرائڈز      
3- اینٹی بائیوٹکس
خدارا میڈیکل اسٹورز پر ہلہ نہ بولیں۔ ان ادویات کا غلط استعمال آپ کی جان بھی لے سکتا ہے۔ اس لئے صرف مستند ڈاکٹر کی ہدایت پر ان دواؤں کا استعمال کیا جائے۔ ان ادویات کی عدم دستیابی سے کسی کی جان جاسکتی ہے۔