حِسّاسیت (الرجی)

حِسّاسیت (الرجی)  

 اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک بہت ہی موثر دفاعی نظام سے نوازا ہے۔ انسان اس دفاعی نظام کے سبب بے شمار بیماریوں اور نقصان دہ اثرات سے محفوظ رہتا ہے۔ کبھی کبھار یہی دفاعی نظام غیر ضروری طور پر عمل میں آجاتا ہے اور اس کے غیر ضروری استعمال سے پیدا ہونے والی تکالیف کو الرجی کہتے ہیں۔ 
 جب کسی شخص کی جسمانی بافتیں کچھ خاص اشیاء کے حوالے سے غیر معمولی حساسیت کا مظاہرہ کریں تو کہا جاتا ہے کہ اس شخص کو ان چیزوں سے الرجی ہے۔ حالات ایک جیسے ہوں اور ایک جیسی ہی مقدار میں یہی چیزیں دوسرے افراد کے لیے نقصان دہ نہیں ہوتی۔ وہ چیزیں یا مادے جن سے کسی شخص کو الرجی ہو اسے الرجن کہتے ہیں۔ مثلاًدھول، پودوں کے پولن، جانوروں کے ڈینڈر (dender)، مخصوص غذا ئیں اور ادویات وغیرہ۔ کسی شخص کو پولن سے الرجی ہو سکتی ہے۔ جبکہ کسی دوسرے شخص کو نہیں بھی ہو سکتی لہٰذا پولن صرف پہلے والے شخص کے لیے ہی الرجن ہوں گے۔ پولن دراصل چھوٹے چھوٹے ذرات ہوتے ہیں جو پھولوں کے اندر پائے جاتے ہیں یہ ذرات پیلے رنگ کے ہوتے ہیں یہ پولن کے ذرات نرپودے سے مادہ پودوں تک اڑنے والے کیڑوں اور ہوا کے ذریعے پہنچتے ہیں لیکن بعض پودوں کے ذرات اتنے چھوٹے ہوتے ہیں جو ہوا سے اڑ کر انسانی ناک کے ذریعے سانس لیتے ہوئے داخل ہو جاتے ہیں اور حساس لوگوں میں الرجی کی وجہ بن جاتے ہیں۔
 جب کوئی شخص کسی الرجن کے قریب جاتا ہے تو اس کا ردِ عمل چھینک، کھانسی، آنکھوں سے پانی کا اخراج او رخارش، سانس لینے میں دِقت محسوس کرنا، بے چینی، ناک سے پانی کا اخراج، آنکھوں پہ سوجن ہو جانا، جلد پر خارش ہونا اور یہاں تک کہ قئے کی شکل میں ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کھُجلی شروع ہو جاتی ہے۔ الرجی شدید ہو تو جلد پر دھبے بھی پڑجاتے ہیں۔ الرجی کے اثرات اکثر چند گھنٹوں اور بعض صورتوں میں کئی دنوں تک جاری رہ سکتے ہیں۔ ہمارا دفاعی نظام ہمیں نقصان دہ عناصر مثلاً وائرس اور بیکٹریا سے بچاتا ہے۔ لیکن کبھی کبھار یہ ان الرجن کے خلاف عمل میں آجاتا ہے جو کہ نقصان دہ نہیں ہوتے اور دفاعی نظام بہت زیادہ شدید ردّ عمل کا اظہار کرتا ہے۔ دفاعی نظام کا بے جا عمل مریض کو نقصان پہنچاتا ہے۔ یہ ضدا جسام امیونوگلو بیولینز۔ای (Immunoglobulins-E) کی وجہ سے ہوتا ہے اور اس سے سفید خلیوں کے اندر چند کیمیائی اجزاء جن میں سب سے اہم ہسٹامین (Histamine) شامل ہے باہر نکلتے ہیں جن سے الرجی کی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ 
الرجی کن اشیاء سے ہوتی ہے۔ ہمارے جسم میں اگر شے کے خلاف Immunoglobulins-Eبن جائے تو اس سے الرجی ہو سکتی ہے۔ اس کے بننے کی بہت وجوہات ہیں جن میں موروثی اثرات، ماحول کے اثرات، خوراک، مریض کی کیفیت اور دیگر عناصر کا اثر شامل ہیں۔ سانس کی الرجی زیادہ تر چھوٹے ذرات جیسے دھول (ڈسٹ) کے ذرات، جانوروں کی ڈینڈر اور پودوں کے پولن وغیرہ کے سانس کی نالی میں داخل ہونے سے ہوتی ہے۔ جلد کی الرجی کھانے او ر پینے کی اشیاء، دوائیں اور مختلف کیمیائی اجزاء سے ہوتی ہے۔ 
ڈسٹ اور پولن الرجی کے احتیاطی تدابیر (۱) جب بھی گھر سے باہر جائیں تو ناک اور منہ کو کپڑے یا ماسک سے ڈھانپ کر جائیں۔ (۲) گھر میں کھڑکیاں اور دروازے اچھی طرح بند رکھیں اور ایئر کنڈیشنر کا استعمال فائدہ مند ہو سکتا ہے۔ (۳) مریض خاص طور پر صفائی یا دھول والے کام سے پرہیز کریں (۴) سادے پانی کی بھاپ لینا اور گرم نمک والے پانی سے غرارے کرنا بہت مفید ہے۔ (۵) آج کل ہوا صاف کرنے والے آلات ان کے لیے فائدہ مند ہیں۔ (۶) ان سب تدابیر کے علاوہ اپنے ڈاکٹر کے مشورے کے مطابق علاج جاری رکھیں۔ (۷) گاڑی میں ہونے کی صورت میں گاڑی کے شیشے اچھی طرح بند کرلیں۔ (۸) قالین، گدی، بستروں اور فرنیچر کی صفائی ضروری ہے۔ 
 الرجی اگر صرف ایک شے سے ہوتو اس کا پتا مریض خود ہی لگالیتا ہے۔ لیکن اگر پتہ نہ چل سکے تو الرجی کے ماہر ڈاکٹر مریض کی History کی بنا پر انداز ہ لگا سکتے ہیں کہ تکلیف کیوں ہے اس کو مزید ثابت کرنے کے لیے جلد یا خون کے ٹیسٹ کی مدد سے پتہ لگایا جا سکتا ہے کہ الرجی کس وجہ سے ہے جلد پر کئے جانے والے الرجی ٹیسٹ زیادہ قابلِ اعتماد اور کم خرچ ہیں جبکہ خون کے ٹیسٹ مہنگے اور زیادہ نتیجہ خیز بھی نہیں ہوتے۔ 
 الرجی کا بہترین علاج یہی ہے کہ الرجی پیدا کرنے والی اشیاء سے مکمل پرہیز کیا جائے۔ اگر پرہیز کامیاب نہ ہو اور دواؤں سے بھی آرام نہ آئے تو وکسین تجویز کی جا سکتی ہے لیکن یہ فیصلہ صرف مستند اور تجربہ کار ماہر الرجی ہی کر سکتاہے۔ ٹیکوں یا ویکسین کے ذریعے الرجی کا علاج ایک جدید ترین اور سائنسی طریقہئ علاج ہے جس کو عالمی سطح پر مستند قرار دیا جا چکا ہے اور اس کے صحیح اور کارآمد استعمال کے لیے عالمی ادارہ صحت (WHO) اور بین الاقوامی دمہ کے ماہرین کی خصوصی ہدایات موجود ہیں۔ الرجی ٹیسٹ یا الرجی ویکسین تکلیف کے دوران یا الرجی کے موسم میں کرانا نہ صرف بے سود ہے بلکہ جان کے لیے خطرناک بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔ الرجی کے علاج کی دوائیں جنہیں ہم اینٹی ہسٹامین (Anti Histamine) کہتے ہیں الرجی کی تکلیف روکنے اور ختم کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ الرجی کے علاج کی دواؤں میں بہتر وہ دوائیں ہیں جن سے نیند نہیں آتی اور زیادہ مدت تک اثر کرتی ہیں یہ دوائیں قیمت میں تھوڑی زیادہ مہنگی ضرور ہیں لیکن اس کے فوائد بھی زیادہ ہیں۔