لاک ڈاؤن - کورونا کے خلاف اعلان جنگ


لاک ڈاؤن - کورونا کے خلاف اعلان جنگ

فی الحال ہمیں اس بحث میں نہیں الجھنا چاہیے کہ کورونا وائرس کی عالمی وبا چین کی حیاتیاتی جنگ ہے یا نہیں؟ یا امریکا کا چین کی معشیت کو نقصان پہنچانے کے لیے کیا گیا کھیل ہے یا نہیں؟ اس بات میں بھی الجھنے کی ضرورت نہیں ہے کہ کورونا وائرس کی عالمی وبا امریکہ اور چین کی مشترکہ سازش ہے جیسا کہ لوگ ایڈز کے لئے امریکہ اور روس کی سازش کہتے ہیں۔اس بات میں بھی نہیں الجھنا ہے کہ حرام جانور کھانے کی وجہ سے یہ بیماری قہر کی صورت میں غالب آئی۔ اور نہ ہی اس میں الجھنا ہے کہ کورونا وائرس اللہ کا عذاب ہے یا امتحان؟ اور نہ ہی اس بات میں الجھنا ہے کہ لا ک ڈاؤن میں ہر چیز بند صرف ٹی وی اور انٹرنیٹ مکمل بند نہیں۔ کیا یہ خوفزدہ کرکے پھر ویکسین کا بزنس کرنا ہے۔ کیونکہ امریکہ کے ایک سینئر سائنسدان انتھونی فاکی نے کہا کہ کورونا ہر سال حملہ کر سکتا ہے۔اگر ماضی کی بعض وباؤں پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ وائرس اتنا خطرناک نہیں ہے جتنا اس سے پیدا ہونے والا خوف بڑا ہے اور زیادہ تر افراد وائرس سے کم اس کے خوف سے ہی مر رہے ہیں۔ نفسیاتی طور پر اسے سمجھنے کے لئے واٹس ایپ پر ایک پوسٹ آئی تھی جو اس طرح ہے۔ ایک سانپ اپنے زہر کی تعریف کر رہا تھا کہ میرا ڈسا پانی بھی نہیں مانگتا۔ پاس بیٹھا مینڈک اس کا مذاق اڑا رہا تھا کہ لوگ تیرے خوف سے مرتے ہیں زہر سے نہیں۔ دونوں کا مقابلہ لگ گیا طے یہ پایا کہ کسی راہگیر کو سانپ چھپ کے کاٹے گا اور مینڈک سامنے آئے گا۔ دوسرے راہگیرکو مینڈک چھپ کے کاٹے گا اور سانپ سامنے آئے گا۔ اتنے میں ایک راہگیر گزر ا اس مسافر کو سانپ نے چھپ کے کاٹا جبکہ ٹانگوں سے مینڈک پھدک کے نکلا۔ راہگیر مینڈک دیکھ کے زخم کھجا کے تسلی سے چل پڑا خیرہے مینڈک ہی تھا کیا فرق پڑتا ہے۔ دونوں اسے دور تک جاتے دیکھتے رہے۔وہ صحیح سلامت چلا گیا دوسرے راہگیر کو مینڈک نے چھپ کے کاٹا اور سانپ پھن پھیلا کے سامنے آگیا۔مسافر دہشت سے فوری مرگیا۔یہی حال کورونا وائرس کا ہے۔ خدارا سوشل میڈیا پر مایوسی مت پھیلائے احتیاط لازم ہے کریں لیکن خوف کو خود سے الگ کر دیں۔ خوف اور مایوسی سے انسان کی قوت مدافت ختم ہوجاتی ہے۔جو کسی بھی بیماری سے لڑنے کیلئے بہت ضروری ہوتی ہے۔ کورونا کے ہزاروں مریض صحت یاب ہو چکے ہیں اور ہورہے ہیں۔ 
کورونا وائرس سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ملک اٹلی کے وزیراعظم نے دنیا کے دیگر ممالک کی حکومت کو انتہائی درد بھرا پیغام دیا اور کہا ہے کہ کورونا کو روکنے کے لیے اٹلی نے اقدامات کرنے میں جو تاخیر کی باقی ممالک کو یہ غلطی نہیں کرنی چاہیے اس لیے کورونا وائرس سے بچنے کے لئے ہمارے پاس صرف اور صرف حل لو ک ڈاؤن ہے ۔جن ممالک نے جتنا جلد اس حکمت عملی کو اپنایا وہاں کورونا وائرس کا پھیلاؤ محدود ہوگیا جبکہ امریکا، ایران، اٹلی اور فرانس کو تاخیر کی وجہ سے سنگین نتائج بھگتنا پڑے۔تنہائی بھی ایک بیماری ہے۔ کیونکہ غم تنہائی بہت سی دیگر بیماریوں کی وجہ بنتی ہے۔ لیکن قسمت دیکھئے کہ ہمیں اپنی اس زندگی میں ایسا دور دیکھنا پڑ رہا ہے۔ جب دنیا کے تمام ڈاکٹرز تنہائی اور ترک تعلق کو ایک خطرناک وبائکورونا کا علاج قرار دے رہے ہیں۔ترکِ تعلق کی وباء سے متعلق اعتبار ساجد نے کہا۔
چلی ہے شہر میں اب کے ہوا ترکِ تعلق کی
کہیں ہم سے نہ ہو جائے خطا ترکِ تعلق کی
زندگی اور موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔تو پھر کورونا وائرس سے کیا گھبرانا؟لیکن اگر دین بھی یہی کہے کہ جہاں وبائپھیل جائے ادھر مت جاؤ تو پھر احتیاط لازم ہے۔
سب سے اعلی معیار، قابل عمل طریقہ چین میں دیکھا گیا ہے لوگوں نے اپنی ذمہ داری کا اس حد تک احساس کیا اور حکومت نے اس قدر کام کیا کہ وائرس کی منتقلی ایک شخص سے دوسرے شخص تک تقریبا ختم ہو گئی اور چند روز پہلے یہ بات سامنے آئی کہ ووہان جو در حقیقت اس وائرس کا بنیادی مرکز تھا۔اس میں نیا کیس نہیں آرہا۔وائرس اوروبا کے زندہ رہنے کے لئے اس کی آگے منتقلی ضروری ہوتی ہے۔ اگر اس کو روک دیا جائے تو وائرس خودبخود مرجاتاہے اور وبا ختم ہوجاتی ہے۔یہی ہم کو بھی کرنا ہے اور ہر شخص کو یہی کوشش کرنی ہے۔ اب یہ فیصلہ ہم پر ہے کہ ہم اپنی ذمہ داری کا احساس کس حد تک کرتے ہیں۔ حکومتی ادارے اور سرکاری ذمہ داران بھی کاوشیں کرتے نظر آرہے ہیں۔لیکن ان سب کے ساتھ ہمیں بھی انفرادی طور پر منفی حرکتوں اور افواہوں سے خود کو اور دوسروں کو محفوظ رکھنے کی بھاگ دوڑ بھی کرنی پڑے گی۔
لاک ڈاؤن کے دوران صفائی کام گار، پولیس، نرس اور ڈاکٹر کے جذبے، خدمت اور ہمت کو سلام۔ کیونکہ لاک ڈاؤن کے دوران یہ سبھی لوگوں کی مدد کرنے میں مشغول ہیں۔جبکہ باقی تمام لوگ گھر پر اپنے خاندان کے ساتھ ہیں۔ اس کی ایک تازہ مثال ایڈیشنل ڈی سی پی رن وجے سنگھ ہیں۔ جنہوں نے بریلی کی تمنہ خان کے شوہر کو نوئیڈا سے بریلی لانے میں اس وقت مدد کی جب تمنہ خان ڈیلیوری پین میں مدد کا انتظار کر رہی تھی۔ ڈی سی پی سے متاثر ہوکر تمنہ خان نے اپنے بیٹے کا نام رن وجے خان رکھ دیا ہے۔
اگرخدانخواستہ یہ بیماری بھارت میں طول پکڑ گئی تو ہماری پہلے سے کمزور معشیت تباہ ہو جائے گی اور ملک مزید کئی سال پیچھے چلا جائے گا۔ اللہ تعالی ہم پر رحم کرے۔ ہمارے پاس اس کو رونا کو کنٹرول کرنے کے نہ وسائل ہیں نہ ہی ا سپتا ل ہیں اور نہ ہی ہمارے پاس اتنے وینٹی لیٹر ہیں کہ لوگوں کی جانیں بچائی جا سکیں۔
آئیں تین ہفتے کیلئے گھر پر رہ کر اس وبا کو شکست دے دیں۔ہم انشاء اللہ یہ جنگ ضرور جیتیں گے۔