اردو میں سائنسی ادب کا روشن ستارہ : جنید عبدالقیوم شیخ

 اردو میں سائنسی ادب کا روشن ستارہ : جنید عبدالقیوم شیخ 

اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کا زمانہ ہے۔ مہاراشٹر میں اردو میں سائنسی ادب کے منظرنامے پر ایک نوجوان تیزی سے ابھر رہا تھا۔ وہ جس شدت سے سائنسی مضامین لکھ رہا تھا اس کے قلم کی رفتار بتا رہی تھی کہ وہ بحیثیت سائنسی قلم کار اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہوگا۔ یہ وہ دور تھا جس میں ڈاکٹر شمیم صدیقی، ڈاکٹر محمد اسلم پرویز،ڈاکٹر رفیع الدین ناصر و دیگر قلم کار اپنی شناخت بنا چکے تھے۔ اور کچھ قلم کار اپنی شناخت بنانے میں لگے تھے۔ ان میں ایک نام جنید عبدالقیوم شیخ کا بھی تھا۔ پھر اس میدان میں جنید عبدالقیوم اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہوئے۔ اور مذکورہ بالا ادیبوں کی صف میں آ کھڑے ہوگئے۔

جنید عبدالقیوم شیخ نے اپنا بچپن، جوانی اسی شہر سولاپور میں گذاری، یہی تعلیم حاصل کی۔ یہیں سوشل اردو ہائی اسکول میں بحیثیت معلم ملازمت اختیار کی۔ موصوف ملنسار، کوش مزاج، حساس طبیعت کے مالک ہیں۔ کلام میں شائستگی و گفتگو میں وابستگی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ سے ملاقات کرنے والے احباب متاثر ہوئے بغیر رہ نہیں سکتے۔

جنید عبدالقیوم شیخ بنیادی طور پر سائنسی مزاج رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے انہوں نے اردو میں شاعری اور افسانے کی بجائے سائنس کو اپنا میدان عمل بنایا۔ وہ جتنی باتیں کرتے ہیں۔ اس سے زیادہ مشاہدہ کرتے ہیں اور اپنے مشاہدے کو سائنسی مضامین کی شکل میں قرطاس کے حوالے کرتے ہیں۔قاری جب موصوف کی تخلیقات پڑھتا ہے تو اپنے مشاہدات، جذبات، احساسات کو محسوس کرتا ہے۔ موصوف جس موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں سنجیدگی کے ساتھ اس کا حق ادا کرتے ہیں۔ عام طور پرقلم کار مضامین پہلے کسی اخبار یا رسالے میں چھپوا کر پھر مجموعہ شائع کرتا ہے لیکن جنید عبدالقیوم شیخ سائنسی ادب کے افق پر اپنے مضامین کے مجموعہ کے ساتھ نمودار ہوئے۔ ایسا بہت کم ہوتاہے۔ آپ کی پہلی تحقیقی کتاب ”مسلم سائنسدانوں کی سائنسی خدمات“ رسم رونمائی سے پہلے ہی مقبول ہو چکی تھی۔ تبصرے کے لیے چند ایک مشاہرین کو کاپی پہنچائی گئی۔ سنیئر قلم کاروں نے اس کتاب کی بھرپور پذیرائی کرتے ہوئے اپنے قیمتی مضامین سے نوازا۔ ان مضامین کو یکجا کر کے کتابچہ کی شکل میں مرتب کر کے سلطان اختر نے شائع کیا۔ دونوں کتابوں کی ایک ساتھ رسم رونمائی انجام پائی۔ یہ بھی اپنے آپ میں اہمیت کی بات ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی۔ جنید شیخ کا قلم تیزی سے چل رہا تھا۔ کچھ ہی مہینوں میں دوسری کتاب انسانی جسم کے اندرونی اعضاء منظر عام پر آئی۔ پھر تیسری کتاب بچوں کے لئے ”سائنس برائے لطف“ لکھی۔ اس کتاب کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے روزنامہ انقلاب ممبئی نے اس کتاب پر مختصراً تبصرہ شائع کیا۔

جنید شیخ طالب علمی کے زمانے سے سائنسی رسائل کا مطالعہ کر رہے تھے۔ ماہنامہ سائنس نئی دہلی کا آپ اکثر مطالعہ کرتے رہتے۔ اردو میں سائنسی ادب کو فروغ دینے والے پچیس سالوں سے اس میگزین کو شائع کرنے والے شہنشاہِ اردو سائنس، اعزازی مدیر ڈاکٹر محمد اسلم پرویز کی شخصیت سے متاثر تھے۔ دل میں ان سے ملاقات کا اشتیاق تو تھا لیکن کوئی سبیل نکل نہیں آ رہی تھی۔دوسری کل ہند سائنس کانگریس ۶۱۰۲ء علی گڑھ میں شرکت کا موقع ملا۔ جناب اسلم پرویز سے ملاقات کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا۔ نیز کئی سینیئر قلم کاروں سے بھی ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا۔ انہیں بہت کچھ نیا سیکھنے کو ملا۔اس کے بعد سائنس کانگریس2017مانو حیدرآباد میں جنید شیخ نے شرکت کی۔

اس کے بعد موصوف نے رسائل کی طرف رخ کیا۔ آپ کےمضامین بچوں کی دنیا، ماہنامہ سائنس، سائنس کی دنیا وغیرہ میں شائع ہو رہے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ طلباء میں قرآن اور سائنس کے رشتے کو مضبوط کرنے اور اسے فروغ دینے کے لئے آپ کوشاں ہیں۔ طلباء میں مختلف سرگرمیوں، مختلف پروگرام کے ذریعے اپنی کاوشوں کو عملی جامہ پہنا رہے ہیں۔ ظہیرالدین سید لکھتے ہیں:

”مصنف جنید شیخ کا مقصد یہی ہے کہ ہمارے طلباء بھی آگے چل کر ایسے ہی عظیم سائنسداں بنےاورقوم و ملت کا نام روشن کریں۔“ (ص۔۶۲ ؎ مسلم سائنسدانوں کی سائنسی خدمات پر تبصرے) موصوف اس سلسلے میں مبارکباد کے مستحق ہیں،امید ہے کہ مستقبل میں بھی آپ اپنی تحریروں سے طلباء اور اردو قارئین کو فیضیاب کرتے رہیں گے اور سرسید کے مِشن کو آگے بڑھائیں گے۔ شولاپور کے اس تابندہ ستارے سے مستقبل کے روشن امکانات وابستہ ہیں۔ میں موصوف کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور سائنسی ادبی سفر کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔