ذہنی تناؤ انسانی صحت کا خطرناک دشمن ہے اور المیہ یہ ہے کہ آج کے دور کا ہر انسان کسی نہ کسی حوالے سے اس کا شکار ہے۔ عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں 45سے 50کروڑ افراد کسی نہ کسی دماغی عارضے میں مبتلا ہیں۔ ہر چوتھا فرد کسی نہ کسی ذہنی مرض کا شکارہے۔ ہمارے معاشرے میں اکثریت ان کی ہے جو ذہنی دباؤ کو مرض ہی نہیں سمجھتے یعنی یہ مرض اتنا عام ہے۔ ورلڈ ہیلتھ ادارے نے 1992میں پہلی مرتبہ دماغی صحت پر عالمی کانفرنس کا انعقاد کیا تھا جس میں فیصلہ ہوا کہ ہر سال 10/اکتوبر کو ذہنی صحت کا عالمی دن منایا جائے۔ اس کا مقصد ذہنی صحت کے متعلق شعور اور آگہی میں اضافہ کرکے صحت مند معاشرے کی تشکیل میں کردار اداکرنا ہے۔
ذہنی دباؤ کا لفظ عموماً ہم اس وقت استعمال کرتے ہیں جب ہم مختلف وجوہات کی بنا پر تناؤ اور پریشانی کا شکار ہوتے ہیں۔ کیا آپ ذہنی دباؤ کا شکار ہیں، اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ہر وقت افسردہ رہیں، اپنے کاموں اور مشاغل سے دلچسپی کم یا ختم ہو جائے، ذہنی یا جسمانی تھکن محسوس کریں، یہ تھکن مسلسل رہے، بلاوجہ غصہ آئے، آپ خود کو دوسروں سے اعلیٰ یا کمتر خیال کرنے لگیں، ماضی کی غلطیاں پچھتاوے بن جائیں، خود کو یا دوسروں کو برے حالات کا ذمہ دار سمجھیں اور مایوس ہو جائیں، اگر آپ کی نیند اور بھوک اڑ جائے، تو سمجھ لیں کہ آپ ذہنی دباؤ کا شکار ہیں یہ ایک قسم کی منفی قوت ہوتی ہے جس سے ہمارا جسم متاثر ہوتا ہے۔ ذہنی دباؤ طویل مدت کے ہو سکتے ہیں جیسے بے روزگاری، خانگی مسائل، مستقبل کی فکر وغیرہ اور یہ مختصر مدت کے بھی ہو سکتے ہیں۔ جیسے ٹریفک میں پھنس جانا، کسی جگہ مقررہ وقت پر نہ پہنچ سکنا۔ اسٹریس ہر وقت برا نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات مثبت بھی ہوتاہے۔ جیسے طالب علم کا امتحان کی تیار ی کے لئے اسٹریس۔ لیکن یہ اسٹریس اس وقت مسئلہ بنتاہے جب وہ دائمی اور لمبے عرصے کے لیے ہو اور اسے اپنے آپ پر حاوی کر لیا جائے جس سے انسانی جسم کی کارکردگی بہت متاثر ہوتی ہے۔ یہی اسٹریس بعد میں بے چینی بڑھ کر ڈپریشن تک جا سکتا ہے۔ ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ ہنسنے مسکرانے سے ذہنی دباؤ میں کمی ہوتی ہے۔
گھروں میں رہنے والی خواتین کی بہ نسبت کام کرنے والی خواتین زیادہ دباؤ کا شکار ہیں اور اسی دباؤ کی وجہ سے ان کے گھر پر بھی اس کے گہرے اثرات ہوتے ہیں خاص طور پر اس کا اثر بچوں کی پرورش پر پڑتاہے جس کے بُرے نتائج نکل سکتے ہیں۔ اب ذرا دیکھتے ہیں ان خواتین و حضرات کو جو ہر وقت انٹرنیٹ پر رہتے ہیں اور جن کو آن لائن رہنے کا نشہ سا ہوجاتاہے۔ ایسے لوگوں کو نہ کھانے کی پرواہ ہوتی ہے اور نہ ہی گھر کے دوسرے افراد کی۔ یہ تو بس اپنے اردگرد کے ماحول سے بے خبر انٹرنیٹ کی دنیا میں گم ہوتے ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ انٹرنیٹ کا زیادہ استعمال کرنے والے بھی ذہنی تناؤ کا شکار رہتے ہیں۔
اس سے پہلے کہ ہم میں سے کوئی ذہنی تناؤ کا شکار ہو جائے اسے وقت سے پہلے اپنے رویہ پر غور کرنا ہوگا اور اپنے آپ کو دباؤ سے نکالنا ہوگا۔ روپے پیسے کی دوڑ میں ہی ہم ہر وہ کام کر جاتے ہیں جو ہمیں نہیں کرنا چاہئے کیونکہ بعد میں پچھتاوا ہی ہمارا مقدر بن جاتاہے۔ ایسے دوست بنائیں جو خوش و خرم رہتے ہوں اور زندگی میں کامیاب ہوں۔ اپنے آپ کو کسی نہ کسی مشغلے میں مصروف رکھیں کام کاج کے بعد تھوڑا بہت وقت گھومنے پھرنے کے لئے ضرور نکالیں تاکہ تازہ ہوا کو لینے کا موقع مل سکے۔ اور تھوڑی دیر کے لئے ذہنی سکون مل سکے۔ تازہ ہوا سے ذہن پر خوشگوار اثرات ہوتے ہیں اور انہی اثرات کی وجہ سے باقی ماندہ دن بھی اچھا گزرے گا۔ اپنے اچھے دوست یا گھر کے کسی فرد سے ذہنی دباؤ کے متعلق بات کریں بلکہ اپنے آپ سے بھی مشورہ کریں۔ آپ دیکھیں کہ پریشانی کم ہوتی جائے گی اور آپ ذہنی دباؤ سے نکلتے جائیں گے۔ آپ اکیلے نہیں جو اس صورت حال سے دو چار ہیں دنیا میں لاکھوں لوگ آپ کی طرح ہوں گے۔ یہ سوچیں کہ زیادہ سے زیادہ کیا ہو جائے گا۔ انسان کی ضرورت ایک وقت میں دو روٹیاں اور سونے کے لئے ایک بستر ہے۔ باقی ہم سب غیر ضروری خواہشات کے پیچھے پوری عمر بھاگتے ہیں۔ آپ پر سب سے زیادہ حق آپ کا اپنا ہے۔اگر آپ کی صحت اچھی ہوگی تو کام کر سکیں گے اور اپنے گھر والوں کی ضروریات پوری کر سکیں گے۔ اس لیے سب سے زیادہ توجہ اپنے آپ پر دیں۔اپنی خوراک، آرام اور سکون کا خود خیال کریں۔ ورزش اور چہل قدمی کے لیے وقت ضرور نکالیں اور اپنے آپ کو Relax رکھیں۔ اللہ کے ذکر سے ہی دلو ں کو سکون ملتاہے۔ اللہ کے بندوں کو خوف اور غم نہیں ہوتا تو ذہنی دباؤ اور پریشا نی آپ کا مقدر کیا بنے گی۔
انسان جب جوان ہو تو ذہنی امراض کا کسی حد تک مقابلہ کر سکتا ہے لیکن بڑھاپے میں اعصابی کمزوری کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں رہتا اس لیے دین اسلام میں حکم ہے کہ اپنے والدین کو اف تک نہ کہو اس لیے معاشرے میں لوگوں کو چاہئے کہ وہ ضعیف افراد کی طرف خصوصی توجہ دیں۔
یہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ذہنی دباؤ، اسٹریس اور ڈپریشن کو مکمل ختم کرنے کی دوا کسی دوا کی دکان سے مل جاتی لیکن بدقسمتی سے حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ اس کا نسخہ اور اس کی دوا صرف اور صرف اسلام ہی کے دواخانے میں ہے۔ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ اسلام کے دواخانے میں موجود ہوتے ہوئے بھی ہم میں اکثر لوگ علاج کے لیے کسی اور طرف کا رُخ کر لیتے ہیں۔
تحریر:جنید شیخ سولاپور
Reviewed by Science in Urdu
on
October 11, 2025
Rating:
