اے آئی کے ذریعے دوا کی دریافت کو بہتر بنانا:

 

دوا کی دریافت ایک ایسی سائنسی مہم ہے جو ہماری صحت کو بہتر بنانے اور بیماریوں سے لڑنے کے لیے نئی دوائیں بنانے کا عمل ہے۔ یہ عمل بہت پیچیدہ اور وقت طلب ہے، لیکن جدید ٹیکنالوجی، خاص طور پر مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence یا AI)، اسے آسان اور تیز تر بنا رہی ہے۔ آج ہم ایک ایسی دلچسپ کہانی پر بات کریں گے کہ کس طرح یونیورسٹی آف نوٹر ڈیم (University of Notre Dame) کے سائنسدانوں نے ایک نئے اے آئی ماڈل کی مدد سے دوا کی دریافت کے عمل کو بہتر بنایا ہے۔ 


دوا کی دریافت کیا ہے؟

دوا کی دریافت (Drug Discovery) ایک سائنسی عمل ہے جس میں سائنسدان یہ پتہ لگاتے ہیں کہ کون سے کیمیائی مالیکیولز (molecules) ہمارے جسم میں بیماریوں سے لڑنے کے لیے بہترین کام کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر آپ کو بخار ہو جائے، تو آپ جو دوا لیتے ہیں، وہ سائنسدانوں کی برسوں کی محنت کا نتیجہ ہوتی ہے۔ وہ مختلف کیمیکلز کو ٹیسٹ کرتے ہیں تاکہ معلوم ہو کہ کون سا کیمیکل آپ کے جسم میں بخار یا بیماری کے جراثیم سے لڑ سکتا ہے۔

یہ عمل کئی مراحل پر مشتمل ہوتا ہے:


1. ہدف کی شناخت (Identifying Molecular Targets): سائنسدان سب سے پہلے یہ پتہ لگاتے ہیں کہ بیماری کا سبب بننے والا جسم کا کون سا حصہ یا پروٹین (protein) ہے۔ اسے "ہدف" کہتے ہیں۔ مثال کے طور پر، کینسر کے خلیات (cancer cells) یا وائرس ایک ہدف ہو سکتے ہیں۔


2. لیڈ کمپاؤنڈ کی تلاش (Finding Lead Compounds): اس کے بعد سائنسدان ایک ایسا کیمیکل تلاش کرتے ہیں جو اس ہدف کو روک سکے یا اسے ٹھیک کر سکے۔ یہ کیمیکل "لیڈ کمپاؤنڈ" کہلاتا ہے۔


3. ٹیسٹنگ اور بہتری: اس لیڈ کمپاؤنڈ کو لیبارٹری میں ٹیسٹ کیا جاتا ہے کہ یہ کتنا موثر اور محفوظ ہے۔ اسے بہتر بنانے کے لیے کئی بار تبدیلیاں کی جاتی ہیں۔


یہ سب مراحل بہت وقت لیتے ہیں، کبھی کبھی 10 سے 15 سال! اس کے علاوہ، یہ عمل مہنگا بھی ہے، اور کئی بار سائنسدانوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔


روایتی طریقوں کی مشکلات: روایتی طور پر، دوا کی دریافت دو اہم طریقوں سے کی جاتی ہے:


1. قدرتی مصنوعات سے ترمیم (Natural Product Derivatization): سائنسدان پودوں، جانوروں، یا سمندری مخلوقات سے کیمیکلز لیتے ہیں اور انہیں تبدیل کر کے دوا بناتے ہیں۔ مثال کے طور پر، کچھ اینٹی بائیوٹکس (antibiotics) پودوں سے بنائی جاتی ہیں۔ لیکن اس طریقے میں بہت وقت لگتا ہے، کیونکہ ہزاروں قدرتی کیمیکلز کو ٹیسٹ کرنا پڑتا ہے۔


2. مصنوعی کیمیکل ڈیزائن (Synthetic Chemical Design): اس میں سائنسدان لیبارٹری میں نئے کیمیکلز بناتے ہیں۔ یہ عمل بھی پیچیدہ ہے، کیونکہ ہر کیمیکل کو ڈیزائن اور ٹیسٹ کرنے میں مہینوں لگ سکتے ہیں۔


ان دونوں طریقوں کی ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ وہ غیر موثر (inefficient) ہیں۔ یعنی، کئی بار سائنسدان بہت محنت کرتے ہیں، لیکن درست کیمیکل نہیں ملتا۔ اس کے علاوہ، یہ عمل بہت سست ہوتا ہے، اور جب بیماریاں تیزی سے پھیلتی ہیں (جیسے کہ کووڈ-19)، تو ہمیں فوری طور پر دوائیں بنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔


اے آئی نے کیا بدلا؟

مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جو کمپیوٹرز کو انسانوں کی طرح سوچنے اور فیصلے کرنے کی صلاحیت دیتی ہے۔ یہ ایک ذہین مددگار کی طرح ہے جو بہت تیزی سے ڈیٹا کا تجزیہ کر سکتا ہے۔ دوا کی دریافت میں اے آئی کا استعمال سائنسدانوں کے لیے ایک بڑی کامیابی ہے۔ اے آئی کی مدد سے:

-ہزاروں کیمیکلز کو تیزی سے جانچا جا سکتا ہے۔

-یہ پیش گوئی کر سکتا ہے کہ کون سا کیمیکل بیماری کے ہدف کے لیے بہتر ہوگا۔

-یہ وقت اور پیسے کی بچت کرتا ہے۔


لیکن اے آئی کے پرانے ماڈلز میں ایک بڑی مشکل تھی جسے "کیٹاسٹروفک فورگٹنگ" (Catastrophic Forgetting) کہتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ جب اے آئی کو نئی چیزیں سکھائی جاتی ہیں، تو وہ پرانی معلومات بھول جاتا ہے۔ یہ ایک طالب علم کی طرح ہے جو نیا سبق سیکھتے وقت پرانا سبق بھول جاتا ہے۔ اس وجہ سے اے آئی کے پرانے ماڈلز ہمیشہ بہترین دوا کے کیمیکلز (optimal drug candidates) تیار نہیں کر پاتے تھے۔


نوٹر ڈیم کا نیا اے آئی ماڈل: CRT یونیورسٹی آف نوٹر ڈیم کے سائنسدانوں نے ایک نیا اے آئی ماڈل بنایا ہے جسے کنڈیشنل رینڈمائزڈ ٹرانسفارمر (Conditional Randomized Transformer یا CRT) کہتے ہیں۔ یہ ماڈل پرانے ای آئی ماڈلز کی مشکلات کو حل کرتا ہے اور دوا کی دریافت کو مزید تیز اور موثر بناتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ CRT کیا ہے اور یہ کیسے کام کرتا ہے۔


1. فائن ٹیوننگ (Fine-Tuning): CRT کو خاص بیماریوں کے ہدف (molecular targets) کے لیے تربیت دی جاتی ہے۔ یہ ایک استاد کی طرح ہے جو طالب علم کو خاص موضوع پر بہتر بناتا ہے۔ CRT کو کیمیکلز کے ڈیٹا سے تربیت دی جاتی ہے تاکہ وہ درست مالیکیولز بنانے میں ماہر ہو جائے۔


2. ڈائریکٹ سٹیئرنگ (Direct Steering): یہ CRT کی ایک خاص صلاحیت ہے جس سے وہ سائنسدانوں کے دیے گئے ہدف کے مطابق مالیکیولز بناتا ہے۔ یہ ایک نقشے کی طرح ہے جو سائنسدان کو بتاتا ہے کہ کون سا راستہ بہتر ہے۔ اس سے CRT مختلف قسم کے کیمیکلز (diverse molecules) تیار کر سکتا ہے۔


3. تیز رفتار اور تنوع: CRT پرانے ماڈلز سے زیادہ تیزی سے کام کرتا ہے اور مختلف قسم کے مالیکیولز بناتا ہے۔ یہ ایک ایسی دکان کی طرح ہے جو آپ کو ایک ہی وقت میں کئی طرح کی اشیا دکھاتی ہے، تاکہ آپ بہترین انتخاب کر سکیں۔




 CRT کیسے مدد کرتا ہے؟

CRT دوا کی دریافت کے عمل کو کئی طریقوں سے بہتر بناتا ہے:

-وقت کی بچت: CRT ہزاروں کیمیکلز کو سیکنڈوں میں جانچ سکتا ہے، جبکہ روایتی طریقوں میں مہینوں لگتے ہیں۔

-تنوع: یہ مختلف قسم کے کیمیکلز بناتا ہے، جس سے سائنسدانوں کو زیادہ اختیارات ملتے ہیں۔

-درستگی: CRT بیماری کے ہدف کے لیے زیادہ درست مالیکیولز بناتا ہے، جس سے کامیابی کی شرح بڑھ جاتی ہے۔

-ماحول دوست: چونکہ یہ کم ٹیسٹنگ کی ضرورت رکھتا ہے، اس سے کیمیائی فضلہ (chemical waste) کم ہوتا ہے۔

مثال کے طور پر، اگر سائنسدان کینسر کے لیے دوا بنانا چاہتے ہیں، تو CRT انہیں کینسر کے خلیات (cancer cells) کو روکنے والے بہترین کیمیکلز کی فہرست دیتا ہے۔ اس سے دوا بنانے کا عمل تیز ہو جاتا ہے، اور مریضوں کو جلد علاج مل سکتا ہے۔


عملی زندگی میں ای آئی کا کردار: CRT جیسے اے آئی ماڈلز ہماری زندگی کو کئی طریقوں سے بہتر بنا رہے ہیں:

-صحت: نئی دوائیں تیزی سے بنانے سے کینسر، ذیابیطس، اور وائرل بیماریوں (viral diseases) جیسے مسائل کا علاج ممکن ہو رہا ہے۔

-ماحولیاتی فوائد: کم کیمیائی تجربات سے ماحول کو نقصان کم ہوتا ہے۔

-صنعت: دوا سازی کی کمپنیاں (pharmaceutical companies) CRT کا استعمال کر کے نئی دوائیں سستے داموں بنا سکتی ہیں، جو مریضوں کے لیے فائدہ مند ہے۔


نوٹر ڈیم کا اگلا قدم: یونیورسٹی آف نوٹر ڈیم کے سائنسدان اب اپنے CRT ماڈل کو عملی دنیا میں لانے کے لیے دوا سازی کی کمپنیوں (pharmaceutical companies) کے ساتھ شراکت داری کرنا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ یہ ٹیکنالوجی لیبارٹری سے نکل کر ہسپتالوں اور مریضوں تک پہنچے۔ وہ اسے مزید بہتر بنانے کے لیے بھی کام کر رہے ہیں، تاکہ یہ اور بھی زیادہ بیماریوں کے لیے دوائیں بنانے میں مدد کر سکے۔


طلبہ کے لیے ایک پیغام: بارہ سال کے طالب علم کے طور پر، تم شاید سوچ رہے ہو کہ یہ سب سائنسی باتیں تمہارے لیے کیوں اہم ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اے آئی اور دوا کی دریافت جیسے شعبے تمہارے مستقبل کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ اگر تم سائنس، کمپیوٹر، یا ریاضی میں دلچسپی رکھتے ہو، تو تم بھی مستقبل میں CRT جیسے ماڈلز بنا سکتے ہو۔ سائنس ایک ایسی دنیا ہے جہاں تم اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے نئی چیزیں دریافت کر سکتے ہو جو لاکھوں لوگوں کی زندگی بچا سکتی ہیں۔


نتیجہ: دوا کی دریافت ایک مشکل لیکن دلچسپ عمل ہے، اور ای آئی جیسے CRT ماڈل اسے تیز، سستا، اور موثر بنا رہے ہیں۔ یونیورسٹی آف نوٹر ڈیم کے سائنسدانوں نے CRT کے ذریعے دوا سازی کے مستقبل کو روشن کیا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی نہ صرف بیماریوں سے لڑنے میں مدد دے گی بلکہ ہمارے ماحول کو بھی بہتر بنائے گی۔ تم جیسے نوجوان طلبہ اس سائنسی انقلاب کا حصہ بن سکتے ہو۔ تو، کیا تم تیار ہو کہ مستقبل میں ایسی ہی حیرت انگیز دریافتیں کرو؟


-تحریر: جنید عبدالقیوم شیخ ، سولاپور

اے آئی کے ذریعے دوا کی دریافت کو بہتر بنانا: اے آئی کے ذریعے دوا کی دریافت کو بہتر بنانا: Reviewed by Science in Urdu on October 18, 2025 Rating: 5
Powered by Blogger.