کینسر کے علاج میں ایک نئی اور دلچسپ پیش رفت سامنے آئی ہے جو امونولوجی (مناعیات) کے میدان میں ایک انقلابی موڑ لا سکتی ہے۔ حالیہ سائنسی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ گلوکوز، جو بنیادی طور پر کوئی سادہ شکر ہے، صرف خلیوں کو توانائی فراہم کرنے تک محدود نہیں بلکہ یہ ٹی سیلز (T cells) کو کینسر کے ٹیومرز کو نشان بنانے اور ان کے خلاف مؤثر طریقے سے لڑنے میں مدد دیتی ہے۔ یہ دریافت نہ صرف سائنسی دنیا میں بڑی بحث کا باعث بنی ہے بلکہ اس نے غذائی عادات اور کینسر کے علاج کے درمیان ایک نئے رابطے کی جانب بھی توجہ دلائی ہے۔ اس مضمون میں ہم اس میٹھی سائنس کو تفصیل سے سمجھیں گے، اس کے پس منظر، اہمیت، اور مستقبل کے امکانات کو واضح کریں گے۔
گلوکوز اور اس کا کردار: گلوکوز ایک بنیادی کاربوہائیڈریٹ ہے جو جسم میں توانائی کا سب سے اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ خون کے ذریعے خلیوں تک پہنچتا ہے اور میٹابولزم کے عمل کے ذریعے اے ٹی پی (ATP) نامی توانائی کے مالیکیولز پیدا کرتا ہے۔ تاہم، حالیہ تحقیق نے بتایا ہے کہ گلوکوز کا کردار اس سے کہیں زیادہ گہرا ہے، خاص طور پر جب بات امونولوجی اور کینسر سے لڑائی کی ہو۔ ٹی سیلز، جو انسانی مدافعتی نظام کا اہم حصہ ہیں، کینسر کے خلیوں کو شناخت کرکے انہیں تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن ان کی یہ صلاحیت ان کے اندر موجود توانائی کے ذخیرے اور مواصلاتی نظام پر منحصر ہے۔
نئی تحقیق کے مطابق گلوکوز نہ صرف ٹی سیلز کو توانائی فراہم کرتا ہے بلکہ ان کی خلیوں کے درمیان رابطے کو بہتر بناتا ہے۔ یہ عمل انٹرلکین (Interleukins) اور سائٹوکائنز (Cytokines) جیسے کیمیائی اشاروں کے ذریعے ہوتا ہے جو ٹی سیلز کو منظم اور فعال بناتے ہیں۔ اس طرح گلوکوز کینسر کے ٹیومرز کے خلاف لڑائی میں ایک "فول اینرجی بووسٹر" کی طرح کام کرتا ہے۔
تحقیقاتی پس منظر: یہ دریافت ایک طویل تحقیق کا نتیجہ ہے جو کئی سالوں سے مختلف لیبارٹریوں میں جاری تھی۔ سائنسدانوں نے مشاہدہ کیا کہ کینسر کے مریضوں میں ٹی سیلز کی کارکردگی اکثر کمزور ہوتی ہے، خاص طور پر ان حالات میں جہاں ٹیومرز نے جسم کے قدرتی وسائل کو ہائی جیک کر لیا ہو۔ اس کے جواب میں محققین نے گلوکوز کے میٹابولک اثرات کا مطالعہ شروع کیا۔ ابتدائی تجربات چوہوں پر کیے گئے، جہاں گلوکوز کی بہتر فراہمی سے ٹی سیلز کی سرگرمی میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا۔ بعد میں انسانی خلیوں پر کیے گئے تجربات نے اس نتیجے کی تصدیق کی کہ گلوکوز نہ صرف توانائی بلکہ مدافعتی ردعمل کو بھی بہتر بناتا ہے۔
اس تحقیق کی قیادت بڑے سائنسی اداروں نے کی، جن میں ہارورڈ میڈیکل اسکول اور نیشنل کینسر انسٹی ٹیوٹ شامل ہیں۔ انہوں نے اعلیٰ درجے کی تصویر کشی اور جینیاتی تجزیہ کے ذریعے یہ ثابت کیا کہ گلوکوز کا متوازن استعمال ٹیومر مائیکرو ماحول (Tumor Microenvironment) کو بہتر بنانے میں مدد دیتا ہے، جہاں کینسر کے خلیے عام طور پر مدافعتی خلیوں کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔
کینسر کے علاج میں انقلاب: یہ دریافت امونو تھراپی (Immunotherapy) کے میدان میں ایک بڑا قدم ہے، جو کینسر کے علاج کا ایک جدید طریقہ ہے۔ روایتی کیموتھراپی اور ریڈیو تھراپی کے مقابلے میں امونو تھراپی جسم کے اپنے مدافعتی نظام کو مضبوط کرکے کینسر سے لڑتی ہے۔ اب گلوکوز کے کردار کی شناخت سے اس عمل کو مزید مؤثر بنایا جا سکتا ہے۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ مستقبل میں کینسر کے مریضوں کے لیے مخصوص غذائی منصوبے بنائے جا سکتے ہیں جو گلوکوز کی مناسب مقدار کو یقینی بنائیں گے، جس سے ان کی مدافعت خود بخود مضبوط ہو گی۔
اس کے علاوہ، محققین گلوکوز پر مبنی دوائیں تیار کرنے پر بھی کام کر رہے ہیں جو براہ راست ٹی سیلز کو ہدایت دے سکیں۔ یہ دوائیں کینسر کے مریضوں کے لیے ایک غیر جانبدار اور کم خطرناک متبادل ہو سکتی ہیں، خاص طور پر ان مریضوں کے لیے جو کیموتھراپی کے شدید اثرات برداشت نہیں کر سکتے۔
غذائی عادات اور کینسر کا رابطہ: اس دریافت نے غذائی عادات اور کینسر کے علاج کے درمیان ایک نئے بحث کا آغاز کیا ہے۔ عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ شکر کینسر کو بڑھاوا دیتی ہے، لیکن یہ تحقیق اس مفروضے کو غلط ثابت کرتی ہے۔ درحقیقت، گلوکوز کا مناسب استعمال جسم کی مدافعت کو بہتر بناتا ہے، جبکہ اس کی کمی ٹی سیلز کو کمزور کر سکتی ہے۔ اس لیے غذائی ماہرین اب اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ کینسر کے مریضوں کو متوازن غذا دی جائے، جس میں گلوکوز کی مناسب مقدار شامل ہو۔
مثال کے طور پر، پھلوں، سبزیوں، اور اناج سے گلوکوز کی قدرتی فراہمی جسم کے لیے بہتر ہو سکتی ہے، جبکہ مصنوعی شکر سے پرہیز ضروری ہے۔ اس کے علاوہ، کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ فاسٹ فوڈ اور زیادہ پروسیسڈ کھانوں سے گلوکوز کا غلط استعمال ہوتا ہے، جو کینسر کے خطرے کو بڑھا سکتا ہے۔
سماجی اور معاشی اثرات: یہ دریافت نہ صرف طبی میدان بلکہ سماجی اور معاشی طور پر بھی اہم اثرات مرتب کر سکتی ہے۔ کینسر کا علاج مہنگا ہوتا ہے، اور بہت سے ترقی پذیر ممالک میں اس تک رسائی محدود ہے۔ اگر گلوکوز پر مبنی سستے علاج متعارف کروائے جا سکتے ہیں، تو یہ دنیا بھر میں کینسر کے مریضوں کے لیے ایک بڑی راحت ہو گی۔ اس کے علاوہ، غذائی اصلاحات سے متعلق آگاہی مہمات چلائی جا سکتی ہیں، جو صحت عامہ کو بہتر بنانے میں مدد دیں گی۔
تاہم، اس دریافت کے عملی اطلاق کے لیے بڑے پیمانے پر кліنیکل ٹرائلز کی ضرورت ہو گی، جو وقت اور سرمایہ کاری طلب کرتے ہیں۔ اس کے باوجود، سائنسی برادری اسے 2025 کی سب سے اہم دریافتوں میں سے ایک قرار دے رہی ہے۔
مستقبل کے امکانات: مستقبل میں گلوکوز کی یہ صلاحیت مزید تحقیق کے ذریعے بہتر بنائی جا سکتی ہے۔ سائنسدانوں کا ارادہ ہے کہ وہ ٹی سیلز کو گلوکوز کے استعمال میں مزید فعال بنانے کے لیے جینیاتی ترمیم (Gene Editing) جیسے طریقوں پر کام کریں۔ اس کے علاوہ، مصنوعی ذہانت (AI) کی مدد سے کینسر کے مریضوں کے لیے انفرادی غذائی منصوبے تیار کیے جا سکتے ہیں، جو ان کے جینیاتی ڈیٹا اور گلوکوز کے ردعمل کو مدنظر رکھیں۔
علاوہ ازیں، یہ دریافت دیگر بیماریوں، جیسے کہ ذیابیطس اور خودکار امراض (Autoimmune Diseases)، کے علاج میں بھی مددگار ثابت ہو سکتی ہے، کیونکہ گلوکوز کا مدافعتی نظام پر گہرا اثر ہے۔
نتیجہ: گلوکوز کی دریافت نے کینسر کے علاج اور امونولوجی کے میدان میں ایک نئی امنگ پیدا کی ہے۔ یہ میٹھی سائنس نہ صرف طبی سائنس کو آگے بڑھا رہی ہے بلکہ مریضوں کے لیے امید کی ایک نئی کرن بھی بن چکی ہے۔ غذائی تبدیلیوں سے لے کر نئی دوائیوں تک، اس تحقیق کے امکانات بے پناہ ہیں۔ تاہم، اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے مزید تحقیق اور تعاون کی ضرورت ہے تاکہ یہ دریافت دنیا بھر کے کینسر مریضوں تک پہنچ سکے۔
تحریر: جنید عبدالقیوم شیخ, سولاپور
Reviewed by Science in Urdu
on
October 22, 2025
Rating:
